فلسطینیوں کی جبری بے دخلی؟ نیتن یاہو نے ٹرمپ کے سامنے غزہ کا ’اصل منصوبہ‘ رکھ دیا

واشنگٹن: اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ایک اہم ملاقات کی ہے، جس میں غزہ میں جنگ بندی اور جنگ کے بعد کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ اس سال دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی تیسری ملاقات ہے۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دوحہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ اگرچہ سرکاری طور پر ہونے والی بات چیت کو خفیہ رکھا گیا ہے، لیکن جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ملاقات میں غزہ کے لیے جنگ کے بعد کے منصوبوں پر کھل کر بات ہوئی، جن میں مبینہ طور پر فلسطینیوں کی جبری بے دخلی بھی شامل ہے۔

اس دورے کے دوران ایک اور دلچسپ پیشرفت یہ ہوئی کہ نیتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا ہے۔

اس ملاقات نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ تجزیہ کار یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ غزہ کے ساتھ اصل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ان منصوبوں کا ممکنہ جنگ بندی کے معاہدے پر کیا اثر پڑے گا؟ اور اس دورے کے پیچھے نیتن یاہو کے سیاسی عزائم کیا ہیں؟

الجزیرہ کے پروگرام “ان سائیڈ اسٹوری” میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے ان منصوبوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا کوئی بھی منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوگا اور خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

اس معاملے پر سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو کا دورہ جنگ بندی کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے اور اس کے دور رس سیاسی مضمرات ہوسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں