وائٹ ہاؤس میں ہلچل: ٹرمپ اور نیتن یاہو کی دوسری ہنگامی ملاقات، جنگ بندی قریب یا کوئی نیا طوفان؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی معاہدے پر بات چیت کے لیے 24 گھنٹوں میں دوسری بار وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے۔

منگل کی شام ہونے والی یہ غیر طے شدہ ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی، جس میں میڈیا کو رسائی نہیں دی گئی۔

ملاقات سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ نیتن یاہو سے ’تقریباً خصوصی طور پر‘ غزہ کے بارے میں بات کریں گے۔ انہوں نے کہا، ’ہمیں یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔ غزہ ایک المیہ ہے، اور وہ اسے حل کرنا چاہتے ہیں، میں بھی اسے حل کرنا چاہتا ہوں، اور میرے خیال میں دوسرا فریق بھی یہی چاہتا ہے۔‘

واضح رہے کہ دونوں رہنماؤں نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں عشائیے پر بھی کئی گھنٹے ملاقات کی تھی۔ صدر ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت کے آغاز کے بعد نیتن یاہو کا یہ تیسرا دورہ امریکہ ہے۔

الجزیرہ کے نمائندے مائیک ہانا نے واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ تازہ ترین ملاقات ’انتہائی خفیہ رکھی گئی اور اس حوالے سے بہت کم معلومات سامنے آئی ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’یہ حقیقت کہ ملاقات اتنی خفیہ تھی، اس بات کا کوئی واضح اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا کہ کیا بات ہوئی، اور وزیراعظم کا ایک گھنٹے بعد ہی اپنی رہائش گاہ واپس چلے جانا، یہ سب اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ کوئی رکاوٹ ہے، کوئی ایسی چیز جو گزشتہ 24 گھنٹوں سے دونوں رہنماؤں کے پرامید مؤقف کو دھندلا رہی ہے۔‘

اس غیر طے شدہ ملاقات سے کچھ دیر قبل، مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے کہا تھا کہ اسرائیل اور حماس کو معاہدے سے روکنے والے مسائل چار سے کم ہو کر صرف ایک رہ گیا ہے اور انہیں امید ہے کہ اس ہفتے ایک عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جائے گا۔

تاہم، ریپبلکن کے زیر کنٹرول ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن سے ملاقات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی مہم ابھی ختم نہیں ہوئی اور مذاکرات کار ’یقینی طور پر‘ جنگ بندی پر کام کر رہے ہیں۔ اسرائیلی رہنما نے کہا، ’ہمیں ابھی غزہ میں کام مکمل کرنا ہے، اپنے تمام یرغمالیوں کو رہا کرانا ہے، اور حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنا ہے۔‘

الجزیرہ کی نمائندہ نور عودہ نے اردن سے رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو پر غزہ کے معاملے پر معاہدے کے لیے ’شدید دباؤ‘ ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی میڈیا وِٹکوف کے دوحہ کے سفری منصوبوں میں تاخیر کی بھی بات کر رہا ہے، حالانکہ رات کو وہ معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں بہت پرامید دکھائی دے رہے تھے کیونکہ ان کے مطابق صرف ایک مسئلہ باقی تھا کہ اسرائیلی فوج دوبارہ کہاں تعینات ہوگی؟‘

عودہ نے مزید کہا، ’یہ اہم ہے، کیونکہ اسرائیل جنوبی غزہ کے شہر رفح پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق، اسرائیل رفح میں ایک خیمہ بستی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جہاں وہ آبادی کو مرتکز کرے گا، داخل ہونے والوں کو کنٹرول کرے گا، کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں دے گا، اور پھر آبادی کو غزہ سے باہر دھکیل کر، اسرائیلیوں کے مطابق، غزہ کو خالی کرنے اور انکلیو پر قبضہ کرنے کے ٹرمپ منصوبے کو نافذ کرے گا۔‘

یاد رہے کہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں کم از کم 57,575 فلسطینی شہید اور 136,879 زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی زیادہ تر آبادی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکی ہے اور اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق تقریباً نصف ملین لوگ مہینوں میں قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے دوران اسرائیل میں اندازاً 1,139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ تقریباً 50 یرغمالی اب بھی غزہ میں ہیں، جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا خیال ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں