نیروبی، کینیا – 7 جون کو، البرٹ اوجوانگ اپنے آبائی گاؤں کاکوتھ میں اپنے والدین سے ملنے گئے تھے۔ ان کی والدہ نے ابھی انہیں دوپہر کے کھانے کے لیے مکئی کی روٹی (اوگالی) اور سبزی پیش ہی کی تھی کہ موٹر سائیکلوں پر سوار پولیس اہلکار ان کے گھر پہنچ گئے۔
اس سے پہلے کہ اوجوانگ ایک لقمہ بھی لے پاتے، پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اور نیروبی میں واقع سینٹرل پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔ اہلکاروں نے ان کے والدین کو بتایا کہ البرٹ نے ایک سینئر سرکاری اہلکار کے خلاف توہین آمیز مواد سوشل میڈیا پر شائع کیا ہے۔
اوجوانگ، جو ایک بلاگر اور استاد تھے، کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا اور وہ اپنی 31ویں سالگرہ سے صرف ایک ماہ دور تھے۔ لیکن یہ وہ خوشی تھی جسے وہ دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے۔ ایک دن سے بھی کم وقت میں، وہ مردہ پائے گئے۔
پولیس کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایک خالی سیل کی دیوار سے اپنا سر ٹکرا کر خودکشی کر لی ہے۔ لیکن عوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے شدید ردعمل اور تحقیقات کے بعد یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا اور بالآخر دو پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اوجوانگ کی موت کے بعد بھڑکنے والا عوامی غصہ اب تک کم نہیں ہوا ہے۔
’جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی معلومات‘
اوجوانگ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کے والد نے 20 سال تک کان میں سخت مزدوری کر کے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی تھی تاکہ وہ خاندان کا سہارا بن سکے۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا، “میرا صرف ایک ہی بچہ تھا۔ اس کے بعد نہ کوئی بیٹی ہے، نہ کوئی بیٹا”۔ اوجوانگ اپنے پیچھے ایک تین سالہ بیٹا چھوڑ گئے ہیں۔
ان کے والد اوپیو گرفتاری کے بعد نیروبی پہنچے تاکہ اپنے بیٹے کو ضمانت پر رہا کروا سکیں، لیکن انہیں اپنے بیٹے کی موت کی خبر ملی۔ پولیس کے خودکشی کے دعوے کے باوجود، خاندان اور عوام نے شکوک کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پر پولیس پر قتل اور پردہ پوشی کے الزامات لگائے۔
بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد، انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈگلس کانجا نے تصدیق کی کہ ان کے نائب، ایلیوڈ لاگت، وہ سینئر اہلکار تھے جن کی شکایت پر اوجوانگ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر، کانجا نے بھی خودکشی کی کہانی دہرائی، لیکن بعد میں سینیٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ یہ معلومات غلط تھیں۔ انہوں نے کہا، “میں اس غلط معلومات پر نیشنل پولیس سروس کی جانب سے معافی مانگتا ہوں۔”
سرکاری پیتھالوجسٹوں کی ایک ٹیم نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ موت کی وجہ سر پر شدید چوٹیں، گردن کا دباؤ اور متعدد ٹشوز کے زخم تھے۔ آزاد پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی (IPOA) کی رپورٹ میں بھی سی سی ٹی وی کیمروں سے چھیڑ چھاڑ اور اوجوانگ کے سیل سے چیخوں کی آوازیں سنے جانے کا انکشاف ہوا، جس سے قتل کا شبہ مزید گہرا ہوگیا۔
اس سلسلے میں گرفتار ایک پولیس کانسٹیبل جیمز مکھوانا نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے اپنے افسر کے حکم پر عمل کیا تھا، جس نے کہا تھا، “اسے مارنا مقصود نہیں تھا بلکہ ہدایت کے مطابق اسے ‘سبق سکھانا’ تھا۔”
احتجاج اور مزید ہلاکتیں
اوجوانگ کی موت نے کینیا میں ایک سال سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کو مزید ہوا دی ہے۔ یہ مظاہرے ٹیکسوں میں اضافے اور صدر ولیم روٹو کے استعفے کے مطالبے کے لیے شروع ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے پولیس پر حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، اغوا اور تشدد کے الزامات عائد کیے ہیں۔
اوجوانگ کی موت کے بعد، نوجوان مظاہرین، جنہیں ‘جنریشن زی’ کہا جاتا ہے، ایک بار پھر انصاف کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ 17 جون کے مظاہرے میں پولیس نے طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں بونیفیس کاریوکی نامی ایک ماسک فروش نوجوان ربڑ کی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔
ملک بھر میں ہونے والے دیگر پرتشدد مظاہروں میں بھی کم از کم تین 17 سالہ نوجوانوں سمیت کئی افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان میں ڈینس نجوگونا، ایلیاہ متھوکا، اور برائن اینڈونگو شامل تھے، جن کے خاندانوں اور حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ مظاہروں کے دوران فائرنگ کی زد میں آ کر مارے گئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کینیا نے اوجوانگ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا، “البرٹ اوجوانگ کو بے دردی سے مارنا اور پھر اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کینیا پولیس سروس کی قیادت کی ساکھ کو ایک بار پھر تباہ کر دیتی ہے۔”
کئی ہفتوں بعد، ‘صبا صبا’ (سات سات) کے دن، 7 جولائی کو، مظاہرین ایک بار پھر سڑکوں پر نکلے۔ اس دن بھی پولیس نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوگئے۔
’تم نے میرے بچے کو کیوں مارا؟‘
البرٹ اوجوانگ کو ان کے دوست ایک پرامن اور ملنسار شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کے والد، میشاک اوپیو، اپنے بیٹے کی موت پر غمزدہ ہیں اور انصاف کے طلبگار ہیں۔ انہوں نے پولیس اور خاص طور پر ڈپٹی انسپکٹر جنرل لاگت سے جواب طلب کیا ہے۔
انہوں نے کہا، “آج میرا بیٹا تشدد سے لگنے والی چوٹوں کی وجہ سے مر گیا ہے۔ میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم نے میرے بچے کو کیوں مارا؟”
ان کا کہنا تھا، “میرا بیٹا کسی حادثے یا جنگ میں نہیں مرا۔ وہ ان لوگوں کے ہاتھوں خاموشی سے مر گیا جن کا کام اس کی حفاظت کرنا تھا۔”