اسلام آباد، پاکستان – بھارت کی جانب سے 6 دہائیوں پر محیط سندھ طاس معاہدے (IWT) کو معطل کرنے کے بعد دونوں جوہری پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے، جبکہ پاکستان نے اس اقدام کو ‘اعلانِ جنگ’ قرار دیتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔
یہ بحران اپریل 2025 میں ভারত کے زیر انتظام کشمیر میں ایک حملے کے بعد شروع ہوا جس میں 26 شہری ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔ نئی دہلی نے حملے کا الزام پاکستان میں موجود مسلح گروہوں پر عائد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کردیا، جو خطے کے 27 کروڑ سے زائد افراد، بالخصوص پاکستانیوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس اعلان کے اگلے ہی روز پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی (NSC) نے اس ‘یکطرفہ’ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ‘پاکستان کے پانی کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگ تصور کی جائے گی’۔ بعد ازاں مئی میں دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ شدید تنازع بھی ہوا جس میں میزائل اور ڈرون حملوں کا تبادلہ کیا گیا۔
اگرچہ عالمی مداخلت پر لڑائی تھم گئی ہے، لیکن بھارت اپنے فیصلے پر اٹل ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ معاہدہ مستقل طور پر معطل رہے گا اور اسے کبھی بحال نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب معاہدے کا مقصد، یعنی امن و ترقی، ہی ختم ہوچکا تو اس کی حفاظت کا کوئی جواز نہیں۔
**کیا بھارت واقعی پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟**
ماہرین کے مطابق، موجودہ انفراسٹرکچر کے ساتھ بھارت کے لیے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کے بہاؤ کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم، پانی کے بہاؤ میں معمولی رکاوٹ یا کمی بھی پاکستان، خاص طور پر موسم سرما میں، کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، ستلج، بیاس) کا کنٹرول بھارت کو جبکہ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا کنٹرول پاکستان کو دیا گیا تھا۔ جغرافیائی طور پر دریائے سندھ اور جہلم کا رخ موڑنا بھارت کے لیے انتہائی مشکل ہے کیونکہ یہ پہاڑی اور گنجان آباد علاقوں سے گزرتے ہیں۔
تاہم، اصل تشویش دریائے چناب کے حوالے سے ہے، جہاں بھارت کے پاس ڈیم بنانے کے لیے موزوں جگہیں موجود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اس دریا پر مزید ڈیم بناتا ہے تو وہ موسم سرما میں پانی کا بہاؤ کم کرکے پاکستان کی فصلوں، خصوصاً گندم کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
**پاکستان کی کمزوری اور تیاری**
پاکستان کا انحصار زراعت پر ہے جو ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد اور 40 فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں پانی کی کمی ایک وجودی خطرہ ہے۔
اس وقت پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود ہے۔ ملک کے تین بڑے آبی ذخائر (منگلا، تربیلا، چشمہ) صرف چار ہفتوں کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں، جبکہ عالمی معیار کم از کم 120 دن کا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مہمند اور دیامر بھاشا ڈیمز پر کام جاری ہے، جن کی تکمیل سے مزید 9 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔
**قانونی اور سفارتی محاذ**
عالمی بینک کے صدر اجے بنگا بھی کہہ چکے ہیں کہ معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق موجود نہیں۔ پاکستان اس معاملے کو ہیگ میں قائم ثالثی کی مستقل عدالت (PCA) میں لے گیا ہے، جس نے حال ہی میں فیصلہ دیا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی اس کے کیس کی سماعت کے اختیار پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ تاہم، بھارت اس عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے۔
**جنگ کا خطرہ**
پاکستان کے سابق وزراء اور فوجی حکام کا مؤقف ہے کہ اگر بھارت نے پانی کا بہاؤ روکا تو اسے ‘اعلانِ جنگ’ سمجھا جائے گا اور تمام آپشنز بشمول فوجی کارروائی، میز پر ہوں گے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ فوری طور پر پانی مکمل بند نہیں کیا جاسکتا، لیکن بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں سفارتکاری کے راستے محدود ہوتے جارہے ہیں اور مستقبل میں پانی پر ایک مکمل جنگ کا خطرہ حقیقی طور پر منڈلا رہا ہے۔