واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس-یوکرین جنگ پر ایک اور بڑا یو-ٹرن لیتے ہوئے یوکرین کے لیے فوجی امداد کی بحالی کا اعلان کردیا ہے اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘پیوٹن کی طرف سے ہمیں بہت سی فضول باتیں سننے کو ملتی ہیں’۔
پیر کے روز واشنگٹن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا اپنا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل یکم جولائی کو وائٹ ہاؤس نے کیف کو فضائی دفاعی انٹرسیپٹرز اور گائیڈڈ بموں سمیت دیگر ہتھیاروں کی فراہمی “روکنے” کا فیصلہ کیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا، “ہم مزید کچھ ہتھیار بھیجنے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ کرنا ہوگا تاکہ یوکرینی اپنا دفاع کر سکیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر پیوٹن مہینوں سے ان کی خوشامد کر رہے تھے لیکن جنگ بندی کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے ناممکن مطالبات کی فہرستیں پیش کرتے رہے۔
منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں ٹرمپ نے مزید سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا، “اگر آپ سچ جاننا چاہتے ہیں تو پیوٹن کی طرف سے ہمیں بہت سی فضول باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ وہ ہر وقت بہت اچھے بنے رہتے ہیں، لیکن یہ سب بے معنی ثابت ہوتا ہے۔”
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ ہفتوں میں روس نے یوکرین کے اہم شہروں پر ڈرون اور میزائل حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں متعدد شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔
**یوکرین کو امریکی ہتھیاروں کی اشد ضرورت**
کیف کو اس وقت سب سے زیادہ امریکی فضائی دفاعی میزائلوں کی ضرورت ہے۔ یوکرینی فضائیہ کے مطابق، روس نے صرف جون میں 5,438 ڈرونز لانچ کیے، جو مارچ کے مقابلے میں ایک چوتھائی زیادہ ہیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ ڈرونز دھماکہ خیز مواد سے لدے ہوتے ہیں۔ روسی ڈرونز اب زمین سے کئی کلومیٹر بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مشین گنوں کی پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں اور کیف کا انحصار امریکی ساختہ پیٹریاٹ جیسے فضائی دفاعی نظاموں پر بڑھ گیا ہے۔
جرمنی کی بریمن یونیورسٹی کے محقق نکولے متروخن کا کہنا ہے کہ “2022 کے مقابلے میں اب انحصار ڈرامائی طور پر بڑھ گیا ہے، کیونکہ اس وقت یوکرین کے پاس سوویت دور کے کئی فضائی دفاعی نظام تھے جو 2023 کے آخر تک ختم ہو گئے۔” ان کے مطابق، امریکی ساختہ ہائی موبیلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹمز (HIMARS) روسی کمانڈ پوسٹس اور اسلحہ ڈپو کو تباہ کرنے میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔
**ٹرمپ کے یو-ٹرن کے پیچھے کیا ہے؟**
ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے پالیسی میں بار بار کے یو-ٹرن ان کے “موڈ سوئنگز” اور ان کی انتظامیہ میں مربوط کوششوں کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ کیف میں قائم پینٹا تھنک ٹینک کے سربراہ وولودیمیر فیسینکو نے اسے “ٹرمپ کی پہاڑیاں” قرار دیا۔
فیسینکو کا کہنا ہے کہ جنگ میں شدت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کریملن اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ امریکہ اب یوکرین کی مدد نہیں کرے گا، جس سے روس کو جنگ جیتنے کا واضح موقع مل گیا۔ تاہم، ریپبلکن پارٹی کی جانب سے بھی ٹرمپ پر دباؤ تھا کہ وہ امداد کی معطلی ختم کریں کیونکہ اس سے واشنگٹن کی ساکھ متاثر ہو رہی تھی۔
**ماسکو کا ردعمل**
ٹرمپ کا یہ فیصلہ ماسکو کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ ایک سابق روسی سفارتکار بورس بونداریف نے الجزیرہ کو بتایا، “ٹرمپ ایک سنجیدہ سیاستدان نہیں ہیں، وہ خود اپنے بیانات کی تردید کرتے ہیں۔ کریملن ان کے اقدامات پر نظر رکھے گا اور انہیں زیادہ ناراض نہ کرنے کی کوشش کرے گا، جبکہ فرنٹ لائن پر پیش قدمی جاری رکھے گا۔”
دوسری جانب، روسی حکام نے اس فیصلے پر محتاط ردعمل دیا ہے اور مغرب پر روس کے خلاف صدیوں پرانی دشمنی کا الزام عائد کیا ہے۔